تعارف حضرت امیر المجاہدین 
تحریر : طلحہ السیف
الامام المجاہد فی سبیل اللہ، الداعیۃ الکبریٰ، امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے بلاد میں بلکہ پورے عالَم میں دعوت جہاد کو عام کرنے اور میدان جہاد میں مشرکین و اہل صلیب کو رسوا کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور اس میدان میں سبقت عطا فرمائی ہے۔
شیخ کی ولادت پاکستان کے صحرائی شہر ’’بہاولپور‘‘ کے ایک غریب مگر دینی اعتبار سے ممتاز گھرانے میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی جناب اللہ بخش صابر نوراللہ مرقدہ ایک مقامی سکول میں ادب کے استاذ تھے۔ آپ کے دادا جناب اللہ دتہ عطا نوراللہ مرقدہ اپنے علاقے میں دینی امور میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے اور نانا حضرت محمد حسن چغتائی نوراللہ مرقدہ دینی تحریکات کے ایک پر جوش سپاہی تھے جنہوں نے اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی اور کئی بار ان تحریکات کی پاداش میں قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے، خصوصاً ’’احرار اسلام‘‘ کے پلیٹ فارم سے تحریک تحفظ ختم نبوت میں قائدانہ اور فداکارانہ کردار ادا کیا۔ اس طرح شیخ کی پیدائش ایسے گھرانے میں ہوئی جن کا تعارف ہی خدمت دین تھا اور آپ ایک متصلب دینی مزاج لے کر دنیا میں آئے۔ بچپن میں شیخ کو سکول میں داخل کرا دیا گیا، جہاں آپ نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور خدا داد فطری ذہانت کی بناء پر ہر جماعت کو امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ اس کم عمری میں ہی اپنے والد گرامی اورنانا جان کی تربیت کے زیر اثر تقریر کی مشق کی اور سکول کے تقریری مقابلوں میں ہمیشہ امتیازی درجات حاصل کرتے رہے۔ آپ کے والد گرامی نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اپنے سب سے لائق فرزند کو دینی تعلیم کے لئے وقف کریں گے، اس لئے ساتویں جماعت سے فراغت کے ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کے روکنے کے باوجود اپنے عہد کا ایفاء کیا اور شیخ کو ایک عزیز کے ہمراہ گھر سے بہت دور مرکز علوم دینیہ کراچی روانہ کر دیا۔ انتہائی کم عمری میں گھر سے اس قدر دور ایسے شہر میں بھیجا جانا جہاں کوئی آشنا نہیں تھا شیخ کے لئے ایک سخت امتحان تھا مگر اللہ رب العزت نے خدمت دین کا جو میدان ان کے لئے مقدر کر رکھا تھا اس کی تیاری کے لئے ایسے امتحان اور شدائدناگزیرہیں۔ کراچی میں حضرت العلامۃ محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ کا قائم فرمودہ جامعہ العلوم اسلامیہ جو اس زمانے میں دینی علوم کے ساتھ تحریکاتِ اسلامیہ کا بھی مرکز تھا آپ کی مادر علمی مقرر ہوا۔ شیخ نے ابتدائی درجات میں اپنی فطری صلاحتیوں اور نیک طبیعت کی وجہ سے طلبہ میں مقام امتیاز پالیا اور اساتذہ کرام کے منظور نظر ٹھہرے اور ان کی خصوصی توجہات کے مورد ہو ئے ۔وسطانی درجات کی ابتدا میں ہی آپ کو اپنے محبوب استاذ حضرت مولانا عبدالسمیع شہید کے واسطے سے مفتی اعظم پاکستان اور جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ سے بیعت اور ارادت کا تعلق نصیب ہوا اور آپ حضرت مفتی صاحب کی خصوصی تربیت میں آگئے ۔ اپنے شیخ کے حکم پر اس زمانے میں کراچی کے ایک معروف علاقے میں ایک مسجد میں امامت اور خطبۂ جمعہ و درس قرآن کا بھی آغاز کیا۔ اللہ رب العزت نے خطابت کا ملکہ بچپن سے عطاء فرمایا تھا اوپر سے شیخ کی صحبت کا حسین رنگ نمایاں تھا اس لئے زمانہ طالب علمی میں ہی اس علاقے کے لوگوں کے مرجع دینی بن گئے اور آپ کا درس قرآن مقبول عام ہوا اور خواتین و حضرات کی بڑی تعداد اس میں شریک ہونے لگی اور لوگوں کی زندگیوںپردینی انقلاب کا اثر نمایاں ہونے لگا۔ آج بھی بیس سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اس علاقے کے لوگوں پر اس تربیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ شیخ نے اپنے ان بزرگ اساتذہ کرام کے زیر سایہ جامعہ میں اپنی تعلیم مکمل کی اور اکابر جامعہ کے حکم پر جامعہ میں بطور استاذ آپ کا تقرر ہوا۔ عربی زبان میں اپنی محنت اور لگن سے خصوصی مہارت پائی تھی اس لئے زیادہ تر اسباق جامعہ کے ’’ معہد‘‘ میں دیے گئے جہاں غیر ملکی طلبہ کو عربی میں اسباق پڑھائے جاتے تھے۔
جہادی زندگی کا آغاز
اسی سال آپ نے جامعہ کے مہتمم حضرت مفتی احمد الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ کے حکم پر افغانستان کا سفر کیا تاکہ جہاد کی تربیت حاصل کریں۔یہ افغان جہاد کے عروج کا زمانہ تھا اور دنیا بھر سے مجاہدین جماعت در جماعت آکر اس عظیم جہاد میں شرکت کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔شیخ کے دل میں اپنے خاندانی پس منظر،نانا جان کی تربیت اور جہادی جذ بے سے سر شار اہل حق اساتذہ کرام کی صحبت کے زیر اثر شمع جہاد تو روشن تھی اور جذبہ پیدا ہو چکا تھا سر زمین ِجہاد کی زیارت نے اس جذبے کو مہمیزدی اور آپ نے اس سفر کے دوران مجاہدین کے حالات کا بغور مشاہدہ کرنے اور اللہ رب العزت کی نصرت کے واقعات دیکھنے کے بعد اپنی زندگی جہاد کے لئے وقف کرنے کا عزم کر لیا۔ جہادی تربیت اور محاذپر عملی شرکت کے بعد آپ واپس کراچی آئے تو آپ نے تدریس کے ساتھ دعوت جہاد کے کام کا آغاز کر دیا۔ خطابت میں ایک زبردست مئوثر اسلوب کے حامل تھے اور ساتھ ہی علمی رسوخ نصیب تھا، دعوت قرآن و حدیث کے دلائل سے مبرھن ہوتی تھی اس لئے تھوڑے ہی عرصے میں ملک کے کونے کونے میں آپ کا نام گونجنے لگا اور ہر طرف دعوتِ جہاد کے اسفار شروع ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس وقت شیخ کی عمر محض ۱۲ سال تھی۔ اس کم عمری میں اللہ رب العزت نے وہ شہرت نصیب فرمائی جس کا احاطہ اس تحریر میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس زمانے میں ہندوؤں کی طرف سے بابری مسجد گرائے جانے کادلخراش واقعہ پیش آیا۔ شیخ کے قلبِ حساس پر اس واقعے نے شدیداثر ڈالا اور اللہ رب العزت کے گھر کی اس بے حرمتی اور ہندوؤں کی طرف سے مزید ہزاروں مساجد گرانے کے عزم نے آپ کو بے چین کر دیا اور آپ نے کراچی میں ایک بڑے مجمع میں خطبہ دیا جس نے ملک بھر میں جذبہ جہاد کی آگ لگا دی۔ ہزاروں نوجوانوں نے دیوانہ وار میدان جہاد کا رخ کیا اور دعوتِ جہاد کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس خطبہ کی۰۱ لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت و تقسیم ہوئیں اور ہندوستان کے ایوانوں تک اس خطاب کی گونج سنی گئی۔شیخ نے تدریس کا مشغلہ ترک کر دیا اور ہمہ تن دعوت جہاد میں مشغول ہو گئے۔
زبان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قلمی صلاحیت سے بھی بھرپور نوازہ تھا، اس لئے تقریر کے ساتھ تحریر کے میدان میں بھی آپنے خدمتِ جہاد کا آغاز کیا۔ مجاہدین کا ترجمان ماہانہ مجلہ’’ صدائے مجاہد‘‘ کے نام سے نکالا جس کی ادارت اور تمام تر تحریری خدمت آپ خود سر انجام دیتے، اور اس کے علاوہ عربی زبان میں مجلہ ’’صوت الکشمیر‘‘ کا بھی اجراء کیا۔ اور دیگر جہادی موضوعات پر کئی مختصر رسائل کے ساتھ بخاری شریف کی کتاب الجہاد کو بنیاد بنا کر ایک قدرے ضخیم کتاب ’’فضائل جہاد‘‘ تصنیف فرمائی۔
بیرونی اسفار
پاکستان کے کونے کونے تک دیوانہ وار دعوتِ جہاد پہنچانے کے بعد آپ نے ملک سے باہر دعوتی اسفار کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے دو طویل دورے فرمائے، افریقہ کے بعض ممالک زیمبیا وغیرہ جا کر وہاں کے مسلمانوں کو فریضۂ جہاد کی طرف متوجہ کیا اور عرب امارات کا سفر کئی بار پیش آیا، عرب امارات کے دورے کے دوران آپ نے عربی زبان میں بھی خطابات کئے جن میں ’’الجہاد والمؤمرات العالمیہ‘‘ نامی خطبہ بہت مقبول ہوا۔ غرضیکہ شیخ نے دعوت جہاد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا، بچھونا بنا لیا اور اہل عجم میں اس سلسلے میں وہی خدمات سر انجام دیں جو اہل عرب میں شیخ عبداللہ عزام شہید(رح) نے کیں۔
سفر ہندوستان واسارت
افغانستان میں مجاہدین کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی مجاہدین نے کشمیر میں جاری جہاد کی طرف رخ کیا اور وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے اس میدان کو آباد کیا۔ جہادِ کشمیر کی اس ترقی اور قوت کے ظاہری اسباب میں شیخ کی طرف سے چلائی جانے والی طوفانی دعوت جہاد اور خصوصاً بابری مسجد کے حوالے سے کئے جانے والے آپ کے بیانات کا بڑا حصہ تھا۔ جہاد کشمیر میں پاکستانی مجاہدین کی قیادت شیخ کے قریبی دوست سجاد افغانی شہید(رح) کے ہاتھ میں تھی جن کا تعلق پاکستانی کشمیر سے تھا۔ انہوں نے شیخ کو دعوت دی کہ آپ کشمیر تشریف لائیں اور کچھ وقت مجاہدین کے ساتھ گزاریں، اس سے ان کے حوصلے جوان ہونگے اور عزائم کو تقویت ملے گی۔ ان کی پر زور دعوت پر آپ نے ہندوستان کی طرف رخت سفر باندھا اور خطرات سے پُر اس سفر کا عزمِ مصمم کر لیا۔ ایک یورپی ملک کا پاسپورٹ حاصل کرکے آپ نے اپنے دشمن ملک ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا۔ جان کو شدید خطرے میں ڈال کر بابری مسجد کے مقام پر گئے، کئی مقامات پر مسلمانوں کو دعوت جہاد دی اور پھر کشمیر کی مقبوضہ وادی کا سفر کیا۔ وہاں مجاہدین سے ملے، ان کی ترتیبات کو منظم کیا، تباہ کن کاروائیاں مرتب کیں اور دو ہفتے سے زائد عرصہ ان امور کی انجام دہی میں گزارکر جب واپس ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے تو اپنے دوست کمانڈر سجاد افغانی شہید کے ساتھ گرفتار کر لئے گئے۔ ہندوستان کی حکومت نے اس واقعے پر بہت خوشی منائی اور ہندوستانی پارلیمان میں بابری مسجد والا خطبہ سنا کر ارکان حکومت کو بتایا گیا کہ ہم نے کس قدر خطرناک دشمن کو گرفتار کیا ہے۔
جیل میں خدماتِ جہاد
شیخ کو تقریباً ایک سال تک مختلف عقوبت خانوں میں تعذیب کا نشانہ بنانے کے بعد جیل منتقل کردیا گیا۔ شیخ نے پہلے سے گرفتار مجاہدین کو منظم کیا، اور علمی و اصلاحی تربیت کا نظام بنایا۔ درس قرآن و حدیث کا حلقہ قائم کیا، حفظ قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور مجاہدین کو متحد کرکے ایک ایسی قوت بنا دیا کہ ہندوستانی حکام اس جیل کے قریب آنے سے بھی خوف کھاتے، اس کے ساتھ شیخ نے تصنیفی کام کی طرف توجہ فرمائی اور جیل سے کئی کتابیں لکھیں۔ سب سے پہلی تصنیف ’’زاد مجاہد‘‘ تھی جو آپ نے انتہائی سخت حالات میں لکھی اور بہت مشکل سے اسے جیل سے باہر تک پہنچا یا۔ یہ کتاب ایک مجاہد کے مکمل طرز حیات اور ایک جہادی جماعت کے لئے مکمل دستورالعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھرآپ نے تعلیم الجہاد کے چار حصے تصنیف کئے جن میں عام فہم انداز میں سوال و جواب کے طرز پر قرآن و حدیث سے ایک مؤمن کو جہاد سمجھایا گیا ہے۔ جیل میں ہی آپ نے علامہ ابن النحاس الدمیاطی شہید(رح) کی کتاب ’’مشارع الاشواق الیٰ مصارع العشاق‘‘ کو بنیاد بنا کر ’’فضائل جہاد‘‘ نامی ضخیم کتاب تصنیف کی، آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتی ہے اوراسے اس موضوع پر سب سے ضخیم کتاب کا درجہ حاصل ہے۔ ’’یہود کی چالیس بیماریاں‘‘ نامی کتاب بھی جیل سے لکھی گئی۔ اس کتاب میں قرآن مجید میں ذکر فرمودہ یہود کی چالیس قلبی بیماریوں کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان امراض کی نشاندہی کرکے مسلمانوں کو ان سے بچنے کی پر زور ترغیب دی گئی ہے اور ان بیماریوں کے دنیوی، اخروی اثرات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب شیخ کی تصانیف میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ان کے علاوہ ’’دروس جہاد‘‘ ’’ آزادی مکمل یا ادھوری‘‘ اور کئی دیگر کتب آپ نے جیل میں لکھیں۔ یوں اسارت کی زندگی بھی آپ کی جہادی خدمات کو روک نہ سکی بلکہ زندانوں سے بھی آپ کی حیّ علی الجہاد کی صدا اہل ایمان تک پہنچتی رہی۔
رہائی۔ ایک فتح مبین
حضرت شیخ چونکہ صرف مجاہدین کے ہر دلعزیز رہنماء ہی نہ تھے بلکہ وہ مجاہدین میں ایک مرشد اور مربی کا مقام رکھتے تھے اس لئے مجاہدین کے قلوب ان کی محبت سے معمور تھے۔ مجاہدین نے ان کی رہائی کے لئے کئی بار کوشش کی اور تین منظم کاروائیاں عمل میں لائی گئیں لیکن ان کے نتیجے میں شیخ کو رہا نہ کرایا جاسکا، اسی طرح شیخ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جیل سے ایک سرنگ کھودی جو اگرچہ مکمل ہوگئی مگر آخری مراحل پر اس کا معاملہ افشاء ہوگیا اور اس وقت جیل کے حکام نے مجاہدین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور شیخ کے قریبی ساتھی اور دوست کمانڈر سجاد افغانی شہیدہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے شیخ کی رہائی کے لئے ایک خاص وقت اور شایانِ شان انداز مقدر فرما رکھا تھا۔ گزشتہ صدی کے اختتامی ہفتے میں پانچ مجاہدین نے ہندوستان کا ایک طیارہ اغواء کر لیا اور اسے قندھار لے گئے، وہاں اس وقت امارت اسلامیہ قائم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں فتح مبین عطا فرمائی اور ۲۲ رمضان المبارک کے دن شیخ ہندوستان سے رہا ہو کر قندھاراترے۔اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو رسوا فرمایا۔اور عسکری ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ہائی جیکنگ کی واحد کامیاب کاروائی تھی جس کے بدلے میں مجاہدین کی رہائی عمل میں آئی اور کاروائی کرنے والے مجاہدین بھی محفوظ رہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس شان سے شیخ کو رہائی عطا فرمائی کہ آٹھ دن تک دنیا بھر کے میڈیا پر ان کا نام سب سے پہلی خبر کے طور پر گونجتا رہا۔
جیش محمدﷺ کا قیام اور بیعت علی الجہاد
شیخ نے اپنی رہائی کے بعد گھر جانے اور والدین کریمین کی زیارت کرنے سے پہلے ہی اپنا کام شروع کر دیا اور کراچی سے دعوت جہاد کا آغاز کر دیا۔ہمارے بلاد کے اکابر علماء نے آپکی آمد کا خیر مقدم کیا اور کراچی میں یوم جمعہ کے ایک بڑے اجتماع میں اساطین علم نے بیعت علی الجہاد کی سنت کے احیاء کے ساتھ جماعت جیش محمد کے قیام کا اعلان کر کے شیخ کو اسکا امیر منتخب کر لیا۔جس شخصیت نے سب سے پہلے شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی وہ ہمارے بلاد کے سلطان العلم والقلم شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید(رح) تھے جو شیخ کے استاد بھی تھے۔ان کے بعد دیگر کئی اکابر علماء نے آپ کے ہاتھ پر بیعت علی الجہاد کی اور اس مبارک عمل کے ساتھ اس جماعت کا قیام عمل میں آیا جسکی تاریخ کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کرنے والی تاریخی عسکری کاروائیوں ،دنیا بھر میں پھیلی دعوتِ جہاد ،خدمت خلق ،فروغ علم دین ،تزکیہ باطن، تعمیر مساجد اور سینکڑوں شہداء کرام کے گھرانوں کی کفالت تک پھیلی ہوئی ہے۔
آیات جہاد کی تفسیر
شیخ نے ہندستان کی جیلوں میں اسارت کے دوران اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید کی آیات جہاد کو جمع کرنا شروع کیا اور چار سو چوراسی ﴿۴۸۴﴾آیات جمع کر کے ان کا خلاصہ تعلیم الجہاد کے چوتھے حصے کی شکل میں مرتب کر کے بھیجاجو شائع اور مقبول عام ہوا۔رہائی کے بعد شیخ نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور پہلے دو بار سورۃ انفال کی اور پھر دوبار پورے قرآن مجید کی آیاتِ جہاد کی تفسیر کا درس دیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔شیخ کی خواہش تھی کہ ان آیات کو جمع کر کے ان کی ایک جامع تفسیر لکھی جائے تاکہ دعوتِ جہاد کے کام کو ایک نئی جہت عطا ہو اور اسکی دلیل میں قوت آئے۔مگر شیخ کی مصروفیات اس کار عظیم کے آڑے آتی رہیں۔شیخ نے کئی اہل علم کو اس طرف متوجہ کیا کہ وہ اس کام کو کریں مگر سب کا جواب تھا کہ یہ کام آپ ہی کی شان کے لائق ہے۔بالآخرشیخ نے اپنی مہاجرت اور مسافرت کے ایام میں اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے والدین کریمین اور اکابر کی دعاؤں سے اس کا آغاز کیا اور دیگر مشغولیات کے ہجوم کے باوجود محض چارسال کے عرصے میں علوم قرآنی سے لبریز یہ مدلل،مبرھن تحفہ امت مسلمہ کو پیش کیا۔الحمدللہ یہ کتاب منظر عام پر آئی ،اکابر علماء نے اسکی تصویب کی ،مجامع عظیمہ میں اسے خراج تحسین پیش کیا،مسلمانوں میں اسے تلقی بالقبول نصیب ہوئی اور یکے بعد دیگرے کئی ایڈیشن اسکے شائع ہوئے ،انگریزی ترجمہ بھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔پشتو ترجمہ شائع ہو کر ہمارے بلاد اور افغانستان میں بکثرت پڑھا جا رہا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے اس کتاب کو پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں اکثریت ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور یورپ کے مسلمانوں کی ہے۔اور اب اس امید اور دعا کے ساتھ اس کتاب کا عربی ایڈیشن عالم عرب کو پیش کیا جا رہا ہے کہ ان شاء اللہ یہ کتاب اور اس کا پیغام عالم عرب میں دعوت جہاد کے فروغ کا ذریعہ بنے گا اور اہل عرب کو بھی اسی طرح اسلام کا یہ محکم فریضہ قرآن کی زبانی سمجھانے کا فریضہ ادا کرے گی جس طرح اس نے ہند و پاک میں لوگوں کے نظریات میں انقلابِ عظیم برپا کردیا۔
یہ چند متفرق کلمات جو حضرت شیخ کی شان کے ہرگز لائق نہیں اس مقصد کے لیے تحریر کیے گئے تاکہ تعارف کا کام دیں ۔اللہ تعالیٰ اس بضاعۃ مزجاۃ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں اور ہمیں شیخ کی ذات سے بھر پور نفع پہنچائیں۔
میں اس دعا کے ساتھ اپنے ان کلمات کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ شیخ کے علم،عمل،عمراور کام میں برکت عطا فرمائے۔ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کا سایہ امت مسلمہ خصوصاً مجاہدین کے سروں پر تا دیر قائم رکھے اور ہمیں ان سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین